’’تاریخی مساجد، بدعت اور کفر کی12 حکایت ‘‘

حکایت(01): ’’تراویح کی جماعت‘‘

حدیث شریف کی سب سے اہم کتاب”بُخاری شریف “میں موجود ہے کہ : امیرُالْمُؤمِنِین حضرت عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہایک مرتبہ رَمَضان المُبَارَک کے مہینے کی ایک رات مسجد میں گئے تودیکھا کہ لوگ الگ الگ انداز سے تراویح پڑھ رہے ہیں ، کوئی اکیلا تو کچھ حضرات کسی کے پیچھے پڑھ رہے ہیں ۔ یہ دیکھ کر آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے فرمایا:میں مناسب خیال کرتا ہوں کہ ان سب کو ایک امام کے ساتھ جمع کردوں(یعنی یہ سب ایک امام کے پیچھے تراویح پڑھ لیں حالانکہ(although) اس انداز سے ایک امام کے پیچھے تراویح جماعت سے پڑھنے کا سلسلہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی ظاہری زندگی میں نہیں ہوا تھا، لیکن پھر بھی) ،آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے حضرت اُبَی بِن کَعْبرَضِیَ اللہُ عَنْہ کوسب کا امام بنا دیا، پھر جب دوسری رات تشریف لائے اور دیکھا کہ لوگ باجماعت (تراویح) ادا کر رہے ہیں ( توبہت خوش ہوئے اور) فرمایا:نِعْمَ الْبِدْعَۃُ ھٰذِہٖ یعنی’’یہ اچّھی بدعت ہے‘‘ ۔ (بُخاری ج۱ص۶۵۸حدیث۲۰۱۰) اس حکایت(سچے واقعے) سے ہمیں یہ درسlesson) )ملا کہ صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ نےدین میں اچھے طریقے نکالے ہیں تاکہ لوگ دین پر اچھے انداز سے عمل کر سکیں۔

حکایت(02): ’’قرآنِ کریم میں نقطوں اور اعراب کا آغاز‘‘

حجاج بن یُوسُف کے ایجاد کردہ کاموں(invented works) میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے سب سے پہلے قرآنِ پاک میں علامات(symptoms) لگائیں ، اسی طرح زبر، زیر، پیش اور نقطوں وغیرہ بھی لگائے۔ قرآنِ پاک بہت خوبصورت انداز سے لکھنے کی کوشش کی لیکن اس طرح کا کام صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ نے نہیں کیا تھا۔کہا جاتا ہے کہ حجاج بن یُوسُف نے تیس(30)قاریوں کو جمع کیا جنہوں نے ایک مہینے میں قرآنِ کریم کے حُروف اور اَلفاظ کو گنا( countکیا) اور اگر اُمّت (nation)کے پہلےخلیفہ حضرت ابو بکرصدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ یا دوسرے خلیفہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہ یا تیسرے خلیفہ حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ عَنْہ یا چوتھے خلیفہ حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ عَنْہْانہیں اس طرح قرآنِ کریم کے حُروف گنتے ہوئےدیکھ لیتے تو یقیناًان کے سروں پر دُرّے(whip) لگاتے کہ فرمایا گیا کہ آخری زمانے میں قرآنِ کریم پڑھنے والے ایسے لوگ ہوں گے جو قرآنِ کریم کے حُروف کی خوب حِفَاظَت (protection)کریں گے مگر اس میں دیے گئے حکموں پر عمل نہیں کریں گے۔ حجاج بن یُوسُف اپنے زمانے میں سب سے بڑا قرآنِ کریم کا قاری تھا اور اُسے سب سے اچھا قرآنِ کریم یاد تھا، وہ ہر تین (3)دن میں قرآنِ پاک کا ختم کیا کرتا تھامگر اس سے بڑھ کر قرآنِ کریم کی حکموں پر عمل نہ کرنے والا بھی کوئی نہ تھا۔(قوّت ُ القلوب ج۲،ص۴۸،۴۹ماخوذاً) اس سچے واقعے سے پتا چلا کہ صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کے زمانےکے بعد بھی دین میں جو نئے کام ہوں لیکن دین کی تعلیمات کے خلاف نہ ہوں، ان پرعمل کیا جاسکتا ہے جیسا کہ قرآنِ کریم میں نقطے وغیرہ بعد میں لگائے گئے مگر اب شاید دنیا میں ایک مسلمان بھی ایسا نہ ہوگا کہ جو نقطوں کے بغیر قرآنِ پاک پڑھ سکے(زبانی یاد ہونا ، ایک الگ بات ہے) حالانکہ یہ نقطے کسی نیک پرہیزگار آدمی نے نہیں لگائے، ان کا لگانے والا بہت بڑا ظالم آدمی تھا۔

حکایت(03): ’’ قرآن جمع کیا گیا‘‘

اُمّت(nation) کے سب سے پہلے خلیفہ حضرت صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ جب خلیفہ بنے تو بعض جھوٹے لوگ ایسے کھڑے ہوئے کہ اپنے آپ کو نبی کہنے لگے( حالانکہ ہمارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تو آخری نبی ہیں، خود فرمایا کہ: میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے(صحیح البخاری،کتاب المغازی،لحدیث:۴۴۱۶،ج۳،ص۱۴۴)) ،دین ِ اسلام کے ان دشمنوں کے خلاف جنگ ہوئی تو اس میں بہت سارے حافظ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُم شہید ہو گئے(یعنی اللہ پاک کی راہ میں لڑتے ہوئے قتل(murder)کر دیےگئے) ۔ اُمّت کے دوسرے خلیفہ ، حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ امیر المؤمنین ، حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے پاس حاضر ہو کر عرض کرنے لگے کہ اس لڑائی میں بہت سے وہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم شہید ہو گئے ہیں جنہیں قرآنِ پاک یادتھا،اگر اسی طرح جنگوں میں حافظ شہید ہوتے رہے اور قرآنِ عظیم کوایک جگہ لکھا ہوا جمع نہ کیا گیا تو مسلمان پریشان ہو جائیں گے، میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ اس بات کا حکم دیں کہ قرآنِ مجید کی سب سورتیں ایک جگہ لکھ لی جائیں۔ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے فرمایا: جو کام حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے نہ کیا وہ ہم کیسے کریں؟حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے عرض کی: حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے یہ کام نہ کیا لیکن خدا کی قسم! یہ کام بھلائی کا ہے ۔ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کو ان کا مشورہ پسند آگیا اور آپ نے حضرت زید بن ثابت رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کو قراٰن مجید جمع کرنے(یعنی ایک جگہ لکھنے) کا حکم دے دیا۔ (بخاری، ج۳،ص۳۹۸،حدیث:۴۹۸۶ ماخوذاً) یہاں تک کہ کچھ دنوں میں اَلْحَمْدُ لِلّٰہ!سارا قرآنِ عظیم ایک جگہ لکھ لیا گیا۔اور بعد میں اُمّت (nation)کے تیسرے خلیفہ حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے اس قرآنِ پاک کی طرح مزید قرآنِ پاک (copies)تیار کرواکے مختلف علاقوں میں بھیج دییے ۔(بخاری ، ج۳، ص۳۹۹ ، حدیث: ۴۹۸۷مُلخصاً) اُمّت کے چوتھے خلیفہ حضرت علی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے مشورے پر امیرُ المؤمنین حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے قرآن پاک یوں بھیجے تھے، آپ نے یہ مشورہ قبول کر کے قرآنِ پاک کے فیضان کو عام کیا اس لیے آپ کو ’’ جامعُ القرآن ‘‘ ( یعنی قرآنِ پاک کو جمع کرنے والا)کہا جاتا ہے۔(فتاوی رضویہ،۲۶ / ۴۳۹-۴۵۲، ملخصاً) حدیث شریف کی سب سے اہم کتاب”بُخاری شریف“ وغیرہ میں موجود اس واقعے سے معلوم ہوا کہ ہمارے چاروں خلیفہ(پہلے: صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ ، دوسرے: فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہُ ، تیسرے:عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ اور چوتھے حضرت علی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ ، سب کے سب) اسلام اور مسلمانوں کی دینی حالت (condition) کے بارے میں سوچتے اور ضرورت ہوتی تو اسلام میں ایسا نیا کام لے آتے یا نیا کام لانے کا مشورہ دیتے کہ جو دین کے اصول کے خلاف نہ ہو۔

حکایت(04): ’’برے طریقے‘‘

سن ۸۰ ہجری میں حجاج ایک ظالم گورنر(governor) تھا، اس کے وقت میں جنتّی صحابی حضرت اَنَس بن مالِک رَضِیَ اللہ عَنْہ فرمایا کرتے کہ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے زمانے میں جو چیزیں تھیں آج میں ہر چیز کو بدلا ہوا دیکھ رہا ہوں،لیکن یہ ایک بات باقی ہےکہ گواہی دی جاتی ہے کہ اللہ پاک کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہیں کی جائے گی۔ عَرْض کی گئی:اے ابو حمزہ! کیا نَماز بھی بدل گئی ہے؟ فرمایا:کیا انہوں نے نَماز میں ان باتوں کو شامِل نہیں کر دیا جو پہلے نہ تھیں؟ آپ رَضِیَ اللہ عَنْہ کی مُراد یہ تھی کہ اب نَماز دیر سے پڑھی جاتی ہے (قوت القلوب ج۲، ص۵۰،۵۱)۔ (یاد رہے!فجر میں اتنی دیر کرنا مکروہ ہے کہ سورج نکلنے کا شک ہونے لگے(بہارِ شریعت ح۳،ص۴۵۱، مسئلہ۵، مُلخصاً) اسی طرح! مغرب میںاتنی دیر کرنا مکروہ (یعنی ناجائز و گناہ)ہےکہ (بڑے بڑے ستاروں کے علاوہ) چھوٹے چھوٹے ستارے بھی چمک جائیں (نظر آنے لگیں) ۔ (فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۵ص۱۵۳ مُلخصاً) اس حکایت سے پتا چلا کہ بُرا طریقہ یا بُری بدعت کسی بھی زمانے میں کوئی بھی نکالے وہ بُری ہی ہے۔

حکایت(05): ’’مجھے پسند نہیں‘‘

امام اعظم ابوحنیفہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے شاگرد امام ابو یوسف حنفی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ قاضی القُضاۃ (chief Justice)، علماء کے استاد اور بہت بڑے اِمام تھے۔(تاریخ ِبغداد،ج ۱۴،ص۲۴۷-۲۶۳) آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے سامنے یہ بات ہوئی کہ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کدو (pumpkin) پسند فرماتے تھے ،آپ کی محفل میں موجود ایک شخص نے کہا:لیکن مجھے کدو (سبزی )پسند نہیں ہے ۔یہ سن کر حضرت امام ابو یوسف حنفی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بہت غصّے میں آگئے اور کچھ اس طرح فرمایا : اس بات سے توبہ کرکے کلمہ شریف پڑھو ورنہ تمہیں جان سے مار دونگا۔(الشفاللقاضی، باب الثانی، ج۲،ص۵۱) یاد رہے کہ اس طرح کی سزا (punishment) دینا مسلمان حاکم(ruler) یا قاضی(judge) کا کام ہے۔ اس سچی حکایت سے سیکھنے کوملا کہ سنّت کی بہت زیادہ اہمیّت (importance)ہے نیز کسی بھی دینی چیز کے بارے میں زبان استعمال کرتے ہوئے بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ ایک حدیثِ پاک میں یہ بھی ہے کہ اللہ پاک کے آخری نبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اولاد آدم مختلف طبقات(different classes) پر پیدا کی گئی ان میں سے بعض مومن پیدا ہوئے ایمان کی حالت(condition) پر زندہ رہے اور مومن ہی مریں گے۔ بعض کافر پیدا ہوئے کُفر کی حالت(condition) پر زندہ رہے اور کافِر ہی مریں گے۔ بعض مومِن پیدا ہوئے مسلمانوں والی زندگی گزاری مگرکُفر کی حالت(condition) پر مریں گے ۔ بعض کافِر پیدا ہوئے ،کافِر زندہ رہے اور(ایمان لا کر) مومِن ہو کرفوت ہونگے (ترمذی،کتاب الفتن، ۴/۸۱ ،حدیث: ۲۱۹۸ )لھذا ہمیں ہر وقت اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ کہیں ہمارے منہ سے کوئی ایسی بات نہ نکل جائے کہ جس سے ہمارا ایمان خراب ہو جائے۔

حکایت(06): ’’ہم تو اپنے دین میں پکّے ہیں ‘‘

جب دجّال نکلے گا ، کچھ لوگ اس کی حرکتوں کو دیکھنے کے لیے جائیں گے اور آپس میں یہ کہتے ہونگے کہ ہم تو اپنے دین پر مضبوط (strong) ہیں،ہمیں دجّال کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا لیکن جب وہاں جائیں گے تودجاّل پر ایمان لے آئیں گے (اور کافر ہو جائیں گے)۔ (سُنَنِ ابوداو،دج۴ ص۱۵۷حدیث ۴۳۱۹ مُلخصاً)حدیث میں فرمایاکہ: شیطان انسان کے جسم میں خون کی طرح تَیرتا(circulating کرتا) ہے (سنن ابی داؤد ،کتاب السنۃ ،الحدیث۴۷۱۹ ، ص۱۵۷۰) ۔ دل کو’”قَلْب “اِسی وجہ سے کہتے ہیں کہ لَوٹ پَوٹ( اُلٹ پلٹ) ہوتا رہتا ہے ۔ اللہ پاک ہی کے کرم سے کوئی ایمان پر قائم رہ سکتا ہے ۔ فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :‏دل کی مثال (example) اس پر(feather) کی سی ہے جو میدانی زمین میں ہو، جسے ہوائیں ظاہروباطن الٹیں پلٹیں۔(‫ابن ماجه ، کتاب السنة ، ۱ / ۶۸ ، حدیث : ۸۸ مُلخصاً) اللہ پاک فرماتا ہے، ترجمہ (Translation) :اورتم میں جو کوئی اپنے دین سے مرتد ہوجائے (یعنی پھر جائے، دین چھوڑ دے)پھر کافر ہی مرجائےتوان لوگوں کے تمام اعمال دنیا و آخرت میں برباد ہوگئےاور وہ دوزخ والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ (ترجمۂ کنز العرفان) (پ ۲،البقرۃ، ۲۱۷)‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬ ایماں پہ ربِّ رحمت، دیدے تو استِقامت دیتا ہوں واسِطہ میں تجھ کو تِرے نبی کا ہونے والے اس سچے واقعےسے معلوم ہوا کہ انسان کو اس بات سے ڈرتے رہنا چاہیے کہ میں کس حالت (condition)میں مروں گا؟ یعنی اگر میں مسلمان ہوں تو کیا مرتے وقت تک مسلمان ہی رہونگا۔ ہمیں اپنے آپ کو ہر گناہ سے بچانا چاہیے اور آسانی کے ساتھ اسلام پر مرنے کی دعا بھی مانگتے رہنا چاہیے۔یاد رہے! ایک گناہ بھی جہنمّ میں جانے کا سبب بن سکتا ہے(فتاوی رضویہ جلد۲۲،ص۱۲۹ ماخوذاً) اور گناہ کُفر کی طرف لے جانے والے ہوتے ہیں(الزواجر ج،۱ص۲۸) ۔

حکایت(07): ’’مفتیٔ اعظم ہند اور ایک تقریر کرنے والا ‘‘

کہا جاتا ہے:ایک بار کسی محفل میں اعلیٰ حضرت کے شہزادے(یعنی بیٹے) حُضور مفتیٔ اعظم ہند، محمد مصطَفےٰ رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ مَنچ (stage)پر موجود تھے۔ ایک مُقرِّر(speaker) کا بہت زور دار بیان چل رہا تھا اور جوش جوش میں انہوں نے خُفیہ پولیس(secret police) کو کہہ دیا:اگر حُکومت کے کِراماً کاتِبِین موجود ہیں تو وہ بھی لکھ لیں ۔۔۔( کِراماً کاتِبِین عَلَیْہِمَاالسَّلَام وہ دو(2) مُبارک فرشتے ہیں جو انسانوں کے اچھے بُرے کام لکھتے ہیں، اس میں نہ تو کسی قسم کی کمی کرتے ہیں اور نہ اپنی طرف سے کچھ بڑھاتے ہیں ، فرشتوں کی شان بہت بڑی ہے، ان کی توہین (insult)کرنا، کُفر ہے یعنی وہ مُقرِّر خُفیہ پولیس(secret police) کو کِراماً کاتِبِین کہہ گئے جو اُن پاک فرشتوں کی توہین (insult)ہے لھذا)یہ بات سنتے ہی حُضور مفتیٔ اعظم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فوراً اُس کو روکا ا ور توبہ کرنے کا حکم دیا ۔ اس پر مقرِّر صاحب نے فوراً سب کے سامنےتوبہ کر لی۔(کفریہ کلمات ص۳۰۰ تا۳۰۱ مُلخصاً) اس حکایت سے معلوم ہوا کہ بیان کرنا سُنی عالم ہی کا کام ہے، مُبلغین کو چاہیے کہ سُنی عالم کی کتاب سے دیکھ کر بیان کریں یہ بھی پتا چلا کہبہت زیادہ بولنے اور لوگوں کا دل جیتنے کی کوشش کرنے میں آخرت کا بہت زیادہ نقصان ہے، لھذا ہمیں اس طرح کے کاموں سے بچنا چاہیے۔

حکایت(08):’’فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے نماز پڑھانے والے کو بھی نہ چھوڑا! ‘‘

قرآن پاک کی معنیٰ بتانے والی تفسیر کی کتاب لکھنے والے امام، حافظ اسماعیل حقّی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ (جن کا انتقال چند سو سال پہلے1137ھ میں ہوا)اپنی مشہور تفسیرروحُ البیان میں ایک واقعہ لکھتے ہیں کہ: حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے زمانے(time) میں ایک امام ہر نماز میں پارہ 30 کی سورت عَبَسَ وَتَوَلّٰیہی پڑھا کرتا تھا(اس سورت میں ہمارے پیارے ربّ نے اپنے پیارے محبوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو اپنی شان کے مطابق کسی بات کی طرف توجّہ (attention)دلائی ہے )۔ حضرتِ عمر فاروق(رَضِیَ اللہُ عَنْہ) اُس وقت مسلمانوں کے خلیفہ (caliph) تھے ، جب اُن کو یہ بات پتا چلی تو آپ(رَضِیَ اللہُ عَنْہ)نے اُس امام کو بُلا کر قتل کرادیا ، کیونکہ ہرنَماز میں یہ سورت پڑھنے سے آپ کو پتا چل گیا تھا یہ شخص عقیدے(beliefs) کامُنافِق ہے( یعنی زبان سےتو کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں اور دل میں یہ ہے کہ میں مسلمان نہیں ہوں) اور اس کے دل میں حُضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے نفرت ہے ،اس لئے اِس سورت کو ہرنَماز میں پڑھتا ہے ۔( رُوحُ البیان ج ۱۰، ص ۳۳۱) اس سچے واقعے سے پتا چلا کہ مسلمانوں کے امیر یا قاضی کا کام ہے کہ اسلام کی تعلیمات(teachings) پر عمل کرنے کے لیے ہر بڑے سے بڑا کام کیا جائے۔اسی لیے مسلمانوں کے دوسرے (2nd )خلیفہ، امیرالمؤمنین فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے مُنافق کا فیصلہ کر دیا۔ دوسری بات یہ بھی پتا چلی کہ اللہ پاک کا اپنے محبوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو توجّہ (attention)دلانا ایک الگ بات ہے اور نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی نفرت کی وجہ سے اس طرح کی باتوں کو بیان کرنا، بہت بڑا جرم ہے۔

حکایت(09):’’مسجدُ الحرام ‘‘

کعبہ شریف کی عمارت(building) سب سے پہلے حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام نے بنائی تھی اور جب حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام کی قوم پر طوفان آیا تو اس وقت خانہ کعبہ کو آسمان پر اٹھا لیا گیاتھا۔ پھراللہ پاک نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کوکعبہ شریف کی عمارت دوبارہ بنانے (rebuildکرنے) کا حکم دیا تو اللہ پاک نے اس کی پہلے والی جگہ بتانے کے لئے ایک ہوا بھیجی کہ جس نے اس کی جگہ کو صاف کر دیا جہاں پہلے کعبہ شریف موجود تھا۔ کچھ علماء کہتے ہیں کہ اللہ پاک نے ایک بادل بھیجا جو اس زمین کے اوپر آگیا کہ جہاں پہلے کعبہ شریف تھا، پھر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام نے کعبہ شریف کی عمارت(building) بنائی۔ ( مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۲۶، ص۷۳۶، خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۲۶، ۳ / ۳۰۵، ملتقطاً)
تَعَارُف (Introduction):
اللہ پاک فرماتا ہے، ترجمہ (Translation) : بیشک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کے لئے بنایا گیا وہ ہے جو مکہ میں ہے برکت والا ہے اور سارے جہان والوں کے لئے ہدایت ہے۔ (پ۴،اٰل ِعمران ،۹۶) (ترجمہ کنز العرفان)کعبہ شریف کو بنانے کے بعد حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کو اللہ پاک کی طرف سے حکم دیا گیا کہ اب لوگوں کومیرے گھرآنے کا بولو تو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام نے(مکّے شریف میں موجود، دنیا کے سب سے پہلے پہاڑ) ابوقبیس پر چڑھ کر لوگوں کو آواز دی کہ بیتُ اللہ (یعنی اللہ پاک کے گھر) کا حج کرو۔قیامت تک آنے والے جن مسلمانوں کی قسمت میں حج کرنا لکھا تھا انہوں نے اللہ پاک کے حکم سے جواب دیا ’’لَبَّیْکَ اَللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ‘‘ یعنی میں حاضر ہوں ، اے اللہ! میں حاضر ہوں۔ (تفسیر صراط الجنان، ۱/۲۰۶۔۶/۴۱۸تا ۴۲۲ملخصا،مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۲۷، ص۷۳۶، خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۲۷، ۳/ ۳۰۵ ملتقطاً)
مسجدُ الحرام کی شان:
{} فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :‏مسجد حرام میں ایک نَماز پڑھنا ایک لاکھ نَمازیں پڑھنے سے افضل ہے ۔ (مسند امام احمد، ۵/۴۵۲، حدیث:۱۶۱۱۷) {} فرمانِ مُصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :بلاشبہ حجر اسود (یعنی کعبہ شریف میں موجود کالے رنگ کا پتھر )اورمقامِ ابراہیم (یعنی جس پتھر پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام نے کعبہ شریف بنایا تھا )جنّت کے یاقوتوں (یعنی بہترین پتھروں)میں سے یاقوت ہيں اللہ پاک نے ان کے نوراورروشنی کوختم کردیا ہے اگراللہ پاک اس روشنی کوختم نہ کرتا تومشرق (east)ومغرب(west) کا درمیانی حصہ روشن ہوجاتا ۔ (صحیح ابن حبان،۶/۱۰،حدیث:۳۷۰۲) {} مسجد حرام کے ساتھ صفااورمروہ کی پہاڑیا ں بھی ہیں کہ جنہیں اللہ پاک نے اپنی نشانی فرمایا ہے۔(پ۲، سورۃ البقرۃ، آیت ۱۵۸، ماخوذاً) {} مسجد الحرام میں 70 انبیائے کِرام عَلَیْہِ السَّلَام کے مَزارات بھی ہیں ۔ (لمعات التنقیح شرح مشکاۃ المصابیح ،۳ /۵۲، فتاوٰی رضویہ ، ۷ / ۳۰۳۔۳۰۴) اس مضمون سے ہمیں یہ باتیں پتا چلیں : (1)خانہ کعبہ کی سب سے پہلی تعمیر حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمائی تھی (2) حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام کی قوم پر طوفان آنے پر خانہ کعبہ کو آسمان پر اٹھا لیا گیا تو اللہ پاک کے حکم سے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام نے پہلی جگہ پر ہی خانہ کعبہ کی دوبارہ تعمیر فرمائی (3) مسجدحرام مکہ مکرمہ کی مشہور ترین مسجد ہے(4) یہی پہلی مسجد ہے جولوگوں کی عبادت کے لیے بنائی گئی (5)مسجد حرام میں ایک نمازکا ثواب ایک لاکھ کے برابر ہے (6) مقام ابراہیم اور حجر اسود بھی اسی مسجد میں ہیں (7)مسجد حرام کے ساتھ صفااورمروہ پہاڑیا ں بھی ہیں(8)مسجد الحرام میں 70 انبیائے کِرام کے مَزارات بھی ہیں

حکایت(10):’’مسجدِ نبوی ‘‘

نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے جب مکّے شریف سے مدینے پاک ہجرت فرمائی (یعنی اللہ پاک کے حکم سے مکّہ پاک چھوڑ کر مدینے شریف چلے گئے)تو اس وقت مدینہ میں کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں مسلمان جماعت کے ساتھ نماز پڑھ سکیں اس لئےمسجد بنانا بہت ضروری تھا۔ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جہاں رُکے تھے، اُس کے قریب ہی ’’قبیلہ (tribe)بنونجار‘‘ کا ایک باغ تھا۔ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے مسجد بنانے کے لئے اس باغ کو قیمت(یعنی پیسے) دے کر خریدنا چاہا تو ان لوگوں نے یہ کہاکہ : یا رسول اﷲ! صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہم اللہ پاک ہی سے اس کی قیمت (یعنی ثواب)لیں گے اورمفت میں زمین مسجد کے لئے دے دی۔ (کچھ علماء کہتے ہیں کہ) یہ زمین دو یتیموں(orphans یعنی ایسے بچّوں) کی تھی (کہ جن کے والد کا انتقال ہو گیا تھا) آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے ان دونوں یتیم بچوں کو بلا یا ۔ ان یتیم بچوں نے بھی زمین مسجد کے لئے دینی چاہی مگر حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اس بات کو پسند نہیں فرمایا اور حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے مال سے آپ نے اس کی قیمت دے دی (یعنی پیسے دے دیے) ۔( مدارج النبوت، ۲/۶۷،۶۸،سیرت مصطفیٰ ،ص۱۸۱)
تَعَارُف (Introduction):
ربیعُ الاوَّل ۱ھ میں مسجِدنَبَوِی شریف بننا شروع ہوئی ۔ مسجد نبوی کی تعمیرمیں صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کے ساتھ نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بھی شامل ہوئےاور آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خود اینٹیں (bricks)اُٹھا اُٹھا کر لاتے اور فرماتےجاتے تھے : اَللّٰہمَّ اِنَّ الْاَجْرَ اَجْرُ الْاٰخِرَۃ فَارْحَمِ الْاَنْصارَ وَالْمُھاجِرَۃ یعنی اےاللہ پاک !آخِرت کا بدلہ ہی بہتربدلہ ہے تُو انصار اور مہاجِرین پر رَحْم فرما۔(وفاء الوفاء، ج۱، ص۳۲۶ ،۳۲۸)حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُ فرماتے ہیں :مدینے والے آقا، پیارے پیارے مصطَفٰے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مسجِد نَبَوی کی تعمیر (construction)کے لئے اینٹیں اُٹھا کر لا رہے تھے ، یہ دیکھ کر میں نے عرض کی: یارسولَ اللہ ( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ) ! یہ اینٹیں مجھے دے دیجئے میں لے جاتا ہوں ۔نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا :اور کافی اینٹیں رکھی ہیں، اُٹھا لاؤ! یہ میں لے جا رہا ہوں ۔ (مسند امام احمد، ۳/۳۲۳، حدیث:۸۹۶۰) مسجد نبوی کی پہلی تعمیر (construction)کچی اینٹوں (raw bricks)سے کی گئی اور اس کی چھت کَھجور کی شاخوں(branches) سے تھی اور اس کے سُتون(column) کھجور کے تنے (palm stems)کے تھے۔(وفاء الوفاء ،ج۱، ص۳۲۷) مسجد نبوی پہلے بہت چھوٹی تھی اس کے قریب ایک زمین بک رہی تھی اﷲ پاک کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا :جو شخص اس زمین کو خرید کر میری مسجد میں شامل کردے اسکو جنّت ملے گی حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُ نے بیس(20) ہزار یا پچیس(25) ہزار روپے میں خرید کر مسجد میں شامل کردی۔ (السنن اللکبری للنسائی، ۳/۳۱، الحدیث: ۴۳۹۱ بالفاظ مختلفۃ۔سرمایۂ آخرت،۱۸۵) پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: فَاِنِّی آخِرُ الْاَنْبِيَاءِ وَاِنَّ مَسْجِدِي آخِرُ الْمَسَاجِدِ بے شک میں سب نبیوں میں آخری نبی ہوں اور میری مسجد آخری مسجد ہے (یعنی جسے کسی نبی نے خود تعمیر(construction) کیا ہو )۔ (مسلم، ص۵۵۳، حدیث:۳۳۷۶) مسجدنبوی شریف میں جاتے ہوئے بہت زیادہ احتیاط کرنا ضروری ہےکہ یہاں ساتھ میں نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا روضۂ مبارک (یعنی مزار شریف)بھی ہے ۔اللہ پاک قرآنِ پاک میں فرماتا ہے، ترجمہ (Translation) : اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو اور ان کے حضور زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کہو جیسے ایک دوسرے کے سامنے بلند آواز سے بات کرتے ہو کہ کہیں تمہارے اعمال بربادنہ ہوجائیں اور تمہیں خبرنہ ہو۔(پ ۲۶، سورۃ الحجرات، آیت ۲) (ترجمہ کنز العرفان) علماء فرماتے ہیں : پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا جو ادب و احترام (respect)اس آیت میں بتایا گیا، یہ آپ کی ظاہری زندگی کے لیے ہی نہیں تھا بلکہ آپ کی وفات ِظاہری سے لے کر تا قیامت بھی یہی ادب باقی ہے۔(صراط الجنان ج۹،ص۳۹۹، مُلخصاً)
مسجدِ نبوی کی شان:
فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :‏ جس نے مسجِدنبوی شریف میں چالیس (40)نَمازیں مُسلسل پڑھیں اس کے لئے جہنَّم اورنِفاق (۱ )سے نَجات (یعنی آزادی)لکھ دی جاتی ہے۔(مسند امام احمد، ۴/ ۳۱۱ حدیث:۱۲۵۸۴) {}فرمانِ مُصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :جو پاک و صاف ہو کرصِرْف میری مسجِد میں نَماز پڑھنے کے ارادے (intention)سے نکلا یہاں تک کہ اُس میں نماز پڑھ لی تو اُس کا ثواب حج کے برابر ہے۔ (شعب الایمان،۳/۴۹۹،حدیث:۴۱۹۱) {} فرمانِ نبّیِ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :‏میری اس مسجد کی ایک نمازپچاس(50) ہزار نمازوں کے برابر ہے۔ (ابن ماجہ ،۲/۱۷۶، حدیث:۱۴۱۳ ) اس مضمون سے ہمیں یہ باتیں پتا چلیں : (1) ا ربیعُ الاوَّل ۱ھ کومسجِدنَبَوِی شریف بننا شروع ہوئی(2) مسجد نبوی کی تعمیر (construction)میں صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کے ساتھ خود نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نےبھی مکمل حصّہ لیا (3) کسی مسجد میں آواز اونچی نہیں کرنی ہوتی مگر یہاں بہت زیادہ خیال رکھنا ضروری ہے(4) مسجد نبوی میں نماز پڑھنا پچاس ہزار نمازوں کا ثواب ہے(5) مسجد نبوی شریف میں چالیس نَمازیں مُسلسل پڑھنے والے کے لیےجہنّم سے آزادی لکھ دی جاتی ہے۔

حکایت(11):’’مسجدِ قبا ‘‘

ہمارے پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جب مکّے شریف سے ہجرت کرکےمدینے پاک تشریف لائے (یعنی اللہ پاک کے حکم سے مکّہ پاک چھوڑ کر مدینے شریف آگئے) تو مدینہ منورہ سے تین میل (یا تین کلو میٹر )کے فاصلے پر ”قُبا“ نامی ایک پرانےگاؤں میں آئے۔ نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے یہاں ایک مسجد بنانے کی نیّت(intention) فرمائی اور اس مسجد کو بنانے کے لئے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے حضرت کلثوم رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُ کی زمین کو پسند فرمایااوراپنے پیارے ہاتھوں سے مسجد بنانا شروع کی ۔اللہ پاک کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے مسجد قبا بنانے میں بھی خود حصّہ لیا اور صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کے ساتھ مل کر بڑے بڑے پتّھر اُٹھاتے اور عمارت(building) میں لگا تےتھے اور سب مل کر اس کی تعمیر (construction) اچھے انداز(nice style) سے کریں ، اس کے لیے صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کے ساتھ آواز ملاکر حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حضرت عبداﷲ بن رواحہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُ کے یہ اشعار پڑھتے جاتے تھے کہ (ترجمہ :)وہ کامیا ب ہے جو مسجد تعمیر(construction) کرتا ہے اور اٹھتے بیٹھتے قرآن پڑھتا ہے اور سوتے ہوئے رات نہیں گزارتا (یعنی عبادت کرتا ہے)۔ (وفا ء الوفاء،ج۱/۲۵۳)
تَعَارُف (Introduction):
مسجد قبا اسلام کی پہلی مسجد ہے جو عام مسلمانوں کے لئے بنائی گئی۔( سیرتِ مصطفیٰ، ص۱۷۱ ،۱۷۵ماخوذ ا،عاشقان رسول کی 130 حکایات،ص۲۹۶ملخصا) مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر فاروقرَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُ مسجدقُبامیں گئےتوفرمایا: اللہ کی قسم! مجھے اِس مسجِدمیں ایک نَمازپڑھنابیتُ المقدَّس میں ایک نَماز پڑھنے کے بعدچار(4)رَکعتیں پڑھنے سے زیادہ پسند ہےاوراگریہ مسجِد دُور ہوتی تب بھی ہم اُونٹوں کے جگرفنا کر دیتے(یعنی اس کی زیارت کیلئے ہم ضَرور سفرکرتے) (کنزالعمال،۷/۶۲، حدیث:۳۸۱۷۴) ۔حضرت عبدُ اللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا ہر ہفتے مسجِد قُبا میں حاضر ہوتے تھے۔ ( مسلم، ص۷۲۴،حدیث:۱۳۹۹)
مسجدِ قبا کی شان:
فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :‏ جو شخص اپنے گھر سے نکلے، پھر مسجد ِقبا میں آ کر نماز پڑھے تو اسے ایک عمرے کا ثواب ملے گا۔ (نسائی،ص۱۲۱،حدیث: ۶۹۶) {}فرمانِ مُصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مسجدِ قبا میں نماز پڑھنے کا ثواب عمرہ کے برابر ہے ۔ (ترمذی،۱/۳۴۸،حدیث: ۳۲۴) {} حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا کہتے ہیں : پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہر ہفتے مسجدِ قبا میں (کبھی) پیدل اور (کبھی کسی جانور وغیرہ پر) سوار ہو کر تشریف لاتے تھے۔ (بخاری،۱/ ۴۰۲، الحدیث: ۱۱۹۳) اس مضمون سے ہمیں یہ باتیں پتا چلیں : (1) مسجد قبااسلام کی پہلی مسجد ہے جو عام مسلمانوں کے لئے بنائی گئی (2)ہجرت کے بعد سب سے پہلے یہی مسجد بنائی گئی (3)مسجدقباکی تعمیر(construction)میں صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کے ساتھ خود نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے بھی مکمل حصہ لیا (4) مسجدِ قبا میں نماز پڑھنے کا ثواب عمرے کے برابر ہے (5) رسول کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہر ہفتے مسجدِ قبا میں (کبھی) پیدل اور (کبھی) سوار ہو کر تشریف لاتے تھے۔

حکایت(12): ’’مسجدِاقصٰی ‘‘

جب جہنّمی ، دوزخ میں چلے جائیں گے اور صرف وہ رہ جائیں گے کہ جنہیں ہمیشہ اس میں رہنا ہےتوایک فرشتہ آواز دے گا: فلاں(شخص) کہاں ہے؟ جس نے اپنی عمر کو برے اعمال میں خراب کردیا؟ پھر وہ فرشتےلوہے کے بڑے بڑے گرز(ایک ہتھیار جس کے اوپر گول موٹا لوہا ہوتا ہے) لے کر اس کی طرف بڑھیں گے اور اس کو بہت ڈرائیں گے اور سخت عذاب(punishment) کی طرف لے جائیں گے اور اسے اُلٹا کرکےجہنّم میں پھینک دیں گے پھر اُسے ایسے گھر میں قید (prison)کر دیں گے جس کےراستے میں بھی سخت اندھیرا ہو گا اور اس میں طرح طرح کے عذاب ہوں گے۔ قیدی (prisoner)ہمیشہ اس میں قید رہیں گے، اس میں آگ بھڑکائی جائے گی (fire will be lit) ، ان کے پینے کو کھولتا ہوا پانی (boiling water) دیا جائے گااور عذاب کے فرشتے ان کو خوب ماریں گے اور ہر طرف آگ ہی آگ ہوگی ۔ وہاں کسی قسم کی ذہانت(intelligence) یا طاقت کا کوئی فائدہ نہ ہوگا اورجہنّم سے آزادی نہ ملے گی،ان کےپاؤں سر کے بالوں سے باندھ دئیے جائیں گےاورگناہوں کی کالک(blackness) سے ان کےمنہ سیاہ (black)ہو جائیں گے،وہ دوزخ میں چیختے چلاتے رہیں گے:اے(جہنّم کے نگران فرشتے) مالک (عَلَیْہِ السَّلَام) ! عذاب پہنچنے کا وعدہ، جو ہمارے لیے تھا وہ سچا ہو چکا،اے مالک! اب ہمیں آزاد کر دو،اے مالک! اب ہم دوبارہ بُرے اعمال نہیں کریں گے۔ دوزخ کے نگران فرشتے حضرت مالک عَلَیْہِ السَّلَامجواب دیں گے:ہائے افسوس (Alas!)! وقت گزر گیا اب تمارے لئے جہنّم سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں، یہیں پڑے رہو اور کوئی بات مت کرو ۔ اگر تمہیں ایک بار اس سے نکال بھی دیا جائے تو تم دوبارہ وہی کرو گے جس سے تم کو منع کیا جاتا ہے۔اب جہنّمیوں کو بہت زیادہ افسوس ہوگا پھر ان کو مزید آگ میں ڈال دیا جائے گا ۔ ان کے اوپر نیچے، سیدھی طرف، اُلٹی طرف بلکہ ہر طرف آگ ہی آگ ہو گی ، گویاکہ وہ آگ کے اندر ڈوبے ہوئے ہوں گے یہاں تک کہ ان کاکھانا،پینا،پہننا، سب آگ ہی ہوگا۔ وہ دوزخ کی آگ کے ٹکڑوں کے درمیان ہوں گے، اب ان کو ڈامر (تارکول ۔ asphalt)کا لباس پہنایا جائے گا، بھاری بیڑیاں(shackles) پہنائی جائیں گی،وہ جہنّم کی سختیوں سے چیخیں گے اور موت کو پکاریں گے تو ان کے سروں کے اوپر کھولتا ہوا پانی ڈالا جائے گا جو ان کی کھال اور پیٹوں کے اندر کا سب کچھ پگھلا دے گا، اور بہت کچھ ہوگا ۔(احیاء العلوم ج۵،ص ۷۲۱،۷۲۲ ماخوذاً)( ہم اللہ پاک سے اُس کے عذاب (punishment) سے پناہ مانگتے ہیں) اب جنّت و دوزخ کے درمیان موت کو مینڈھے(sheep) کی شکل میں لا کر کھڑا کر دیا جائے گا، پھر کوئی آواز دینے والا آواز دے کر جنّتیوں اور جہنّمیوں کو بُلائے گا توجنّت والے ڈر ڈر کر جنّت سے باہر دیکھیں گے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمیں یہاں سے نکلنے کا حکم دے دیا جائے اور دوسری طرف جہنّم والے خوشی سے جہنّم کے باہر دیکھیں گے کہ شاید اس مصیبت سے آزادی ملے۔اب جنّتیوں اور جہنمیوں دونوں سے پوچھا جائے گا کہ اس مینڈھے(sheep) کو پہچانتے ہو؟ سب کہیں گے : ہاں ! یہ موت ہے۔اب سب کے سامنے اُسے ذبح (slaughter)کر دیا جائے گی اور کہے جائے گا : اے جنّت والو! ہمیشہ کے لیے(تم جنّت میں) ہو اب مرنا نہیں ہے اور اے جہنّم والو! ہمیشہ کے لیے(تم جہنّم میں) ہو، اب موت نہیں ، اس وقت جنّتیوں کے لیے خوشی پر خوشی ہوگی اورغیر مسلم ہر طرح کی بھلائی سے نااُمید ہوجائیں گے اور گدھے کی آواز میں چِلّا چِلّا کر اِتنا روئیں گے کہ آنسو ختم ہوجائیں گےاور آنسوؤں کی جگہ خون نکلے گا، روتے روتے گالوں میں گڑھے پڑجائیں گے اور رونے کی وجہ سے اِتنا خون اور پیپ (pus)نکلےگا کہ اگر اُس میں کشتیاں (boats) ڈالی جائیں تو چلنے لگیں(بہار شریعت،۱/۱۶۳تا۱۷۱ماخوذ ا) نَسْألُ اللہَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِی الدِّیْنِ وَالدُّنْیَا وَالاٰخِرَۃ(ہم اللہ پاک سے دین، دنیا اور آخرت میں معافی اورسلامتی کا سوال کرتے ہیں) ۔(بہارِ شریعت ج۱ ص۱۷۰ تا ۱۷۱ مُلخصاً) جہنّمیوںکے ساتھ ہونے والے اس سچے واقعے سے معلوم ہوا کہ بُرے کاموں کا انجام(result) برا ہے، ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے کاموں کو اچھا کریں اور آخرت کی تیاری کریں۔
تَعَارُف (Introduction):
مُلک فلسطین میں موجود ’’ مسجدِ اقصیٰ ‘‘جس کی طرف منہ کر کے پہلے نماز پڑھی جاتی تھی مگر اب قیامت تک کعبہ شریف کی طرف ہی نماز پڑھی جائے گیا، اسے’’ بَیْتُ الْمَقْدِس‘‘ بھی کہتے ہیں۔مفتی احمدیار خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ اس طرح لکھتے ہیں:اس زمین میں انبیاء کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کے مزارات بہت ہیں اس لئے اسے قُدْس (یعنی پاکیزہ)کہا جاتا ہے۔( مراۃ المناجیح،۶ / ۴۵۷) حضرت سلیمان عَلَیْہِ السَّلَام کا مزار شریف بھی اسی شہر میں ہے۔( عجائب القراٰن، ص ۱۹۴،سفرنامے مفتی احمد یار خان، حصہ دوم، ص ۹۵ملخصاً) نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو معراج کی رات مسجد حرام سے مسجد اقصی لے جایا گیا، جہاں آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے سارے انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام کو نماز پڑھائی ۔پھر آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اسی مسجد سے سفرِ معراج پر روانہ ہوئے ۔ مسجد حرام سے مسجد اقصی کے اس مبارک سفر کے بارے میں اللہ پاک فرماتا ہے، ترجمہ (Translation) : پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے خاص بندے کو رات کے کچھ حصے میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک سیر کرائی۔ (پ۱۵،بنی اسرائیل ،آیت: ۱) (ترجمہ کنز العرفان)
مسجدِ اقصیٰ کی شان:
اللہ پاک فرماتا ہے، ترجمہ (Translation) : (مسجد اقصیٰ) جس کے اردگرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں تاکہ ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں ، بیشک وہی سننے والا، دیکھنے والاہے۔ (پ۱۵،بنی اسرائیل ،آیت: ۱) (ترجمہ کنز العرفان)علماء فرماتے ہیں:اس آیت میں اللّٰہ پاک نے مسجد ِاقصیٰ کی شان بیان فرمائی کہ اس کے ارد گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں دینی بھی اور دنیوی بھی ۔ دینی برکتیں کہ یہ زمین وحی کے اترنے ، انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کی عبادت کرنے کی جگہ کے ساتھ ساتھ عبادت کا پہلا قبلہ تھی۔ دنیوی برکتیں یہ کہ یہاں نہریں (canals) اور درخت بہت ہیں جس کی وجہ سے پھل وغیرہ بھی بہت ہیں۔ ( مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱، ص۶۱۵، خزائن العرفان، بنی اسرائیل، تحت الآیۃ: ۱، ص۵۲۵، ملتقطاً ) {} فرمانِ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :‏ مسجد اقصیٰ اور میری مسجد(یعنی مسجد ِ نبوی)میں نَماز پڑھنا پچاس ہزارنَمازوں کے برابر ہے ۔(ابن ماجہ، ۲/ ۱۷۶،حدیث:۱۴۱۳) {}حضرت سلیمان عَلَیْہِ السَّلَام نے اللہ پاک سے دعا کی تھی :اے اللہ پاک! جوشخص اس مسجد(یعنی مسجد اقصیٰ) میں صرف نماز کے ارادے (intention)سے آئے تو جب تک وہ اس مسجد میں رہے تُو اس سے نظر رحمت نہ پھیرنا یہاں تک کہ وہ یہاں سے واپس نہ چلاجائے اوراسے گناہوں سے اس طرح پاک کردینا جیسا اس دن تھا کہ جس دن اس کی ماں نے اسے جنا(mother had given birth ) تھا۔‘‘ اللہ پاک نےآپ کی یہ دعا قبول(accept) فرمائی۔(احیاء العلوم مترجم ، ۲/۸۹۹) اس مضمون سے ہمیں یہ باتیں پتا چلیں : (1) مسجدِ اقصیٰ مسلمانوں کا پہلاقبلہ ہے (2) مسجد اقصیٰ مسجد حرام کے تقریبا چالیس سال بعد بنائی گئی (3) مسجدِ اقصیٰ فلسطین کے شہر القُدْس میں واقع ہے، بعض نے اس شہر کو بھی بَیتُ المُقَدَّس کہا ہے (4) یہ بھی معلوم ہوا کہ انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کے پاک جسم وفات کے بعد صحیح رہتے ہیں جیسا کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ السَّلَام وفات کے بعد ایک سال تک لاٹھی کے ساتھ کھڑے رہے اور آپ کا جسمِ مبارک صحیح رہا(5) معراج کی رات ہمارے پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے مسجد اقصیٰ میں سارے انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام کو نماز پڑھائی (6) بَیْتُ الْمَقْدس میں ایک نَماز پڑھنا عام مساجد میں پچاس ہزار نَمازیں پڑھنے سے افضل ہے۔